Thursday 16 August 2012

~ ~ M O H A B B A T ~ ~

" محبت "

Kehkashan Arshad

محبت اس کی مری زیست کی اساس بھی ہے

وہ چھن نہ  جائے بس اس ڈر سے دل اداس ہے

اداسیاں مرے اندر کی چھپ نہیں پائیں

اگرچہ میرے بدن پہ نیا لباس بھی ہے

ستم تو یہ ہے گریزاں بھی رہتا ہے مجھہ سے

وہ اک شخص جو مرا ادا شناس بھی ہے

جدائیوں میں بھی یاد آیئں قربتیں اس کی

گھلی ہوئی مری تلخی میں اک مٹھاس بھی ہے

عجیب معجزے دیکھے ہیں اس محبت میں

وہ مجھہ سے دور بھی ہے اور مرے پاس بھی ہے

گرفت مرگ سے میں اس لیے نکل آئی

کہ ناامیدی میں شامل ذرا سی آس  بھی ہے 

لبوں پہ لفظ کوئی میں نہ لاسکی

 یہ اور بات کہ آنکھوں میں التماس بھی ہے

              (کہکشاں ارشد )