~ ~ M O H A B B A T ~ ~
" محبت "
محبت اس کی مری زیست کی اساس بھی ہے
وہ چھن نہ جائے بس اس ڈر سے دل اداس ہے
اداسیاں مرے اندر کی چھپ نہیں پائیں
اگرچہ میرے بدن پہ نیا لباس بھی ہے
ستم تو یہ ہے گریزاں بھی رہتا ہے مجھہ سے
وہ اک شخص جو مرا ادا شناس بھی ہے
جدائیوں میں بھی یاد آیئں قربتیں اس کی
گھلی ہوئی مری تلخی میں اک مٹھاس بھی ہے
عجیب معجزے دیکھے ہیں اس محبت میں
وہ مجھہ سے دور بھی ہے اور مرے پاس بھی ہے
گرفت مرگ سے میں اس لیے نکل آئی
کہ ناامیدی میں شامل ذرا سی آس بھی ہے
لبوں پہ لفظ کوئی میں نہ لاسکی
یہ اور بات کہ آنکھوں میں التماس بھی ہے
(کہکشاں ارشد )